حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایام شهادت حضرت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب(علیہ السلام) پر شیعہ مرجع تقلید حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کی جانب سے مولای متقیان کے ۱۴۰۰ویں سال شہادت کی مناسبت سے جاری شده بیان میں آیا ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
مولی الموحدین امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) کے ۱۴ویں شہادت کی صدی کی مناسبت سے عظیم کانفرنس کی تشکیل ایک نہایت ہی جاذب نظر تدبیر ہے کہ جو اس کانفرنس کے انعقاد کرنے والوں کے حضرت امیرالمومنین(ع) کے ساتھ نہایت عشق و ارادت کا ظاہر کرتی ہے۔
میں اپنی طرف سے ان سب منتظمین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اسی طرح آپ سب عزیزان کا بھی کہ یقینا مولای متقیان(ع) کے عشق اور ان کے ساتھ آپ لوگوں کے دلی لگاؤ نے آپ کو اس پروگرام کے انعقاد کی طرف مائل کیا ہے۔
یقینا یہ سب امور ’’ فوز یوم المعاد و نجات یوم القیامۃ‘‘ کا وسیلہ قرار پائیں گے۔
مجھ حقیر کے عقیدے کے مطابق امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ سے مظلوم رہے ہیں اور اب بھی مظلوم ہیں۔ تاریخ اسلام میں ایسا کوئی فرد نہیں ملتا کہ جس کے خونی دشمن اس کے نام والا کو ۷۰ سال تک منبر پر نہایت رکیک الفاظ سے لیتے رہے ہوں اور جیسا کی قرائن و شواہد سے پتا چلتا ہے کہ کسی کو بھی یہ کام ترک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
دنیائے اسلام کی حیران کن امور میں سے ایک یہ ہے کہ جب معاویہ مدینہ آیا اور سعد بن ابی وقاص فاتح قادسیہ سے ملاقات کی تو اس سے کہا: اے سعد! میں نے سنا ہے کہ تو علی پر سبّ و شتم نہیں کرتےہو! کیوں؟(یعنی معلوم ہوتا ہے کہ سعد کے مدینہ میں سبّ و شتم نہ کرنے کی خبر بھی شام میں معاویہ تک پہنچ جاتی تھی)
سعد نے کہا: میں نے تین کلمات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے سنے ہیں جس کی وجہ سے کبھی بھی علی(ع) کو ناسزا نہیں کہوں گا۔ وہ تین جملے یہ ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی میرے لئے ہوتا تو مجھے سرخ بالوں والے انٹوں کے گروہ سے بھی زیادہ عزیز تھا، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کسی غزوہ پر جاتے تھے تو علی(ع) کو مدینہ میں اپنی جگہ چھوڑ کر جاتے تھے، علی(ع) نے عرض کی:’’اے رسول خدا(ص)! مجھے یہاں بچوں اور خواتین میں چھوڑ کر خود جنگ پر جنگ جا رہے ہیں!؟ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: «اَمّا تَرضی اَن تَکُونُ مِنّی بِمَنْزِلَةُ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي»؛ آیا تم راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون(حضرت موسیٰ کے بھائی اور جانشین) کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے(لیکن موسیٰ کے بھائی کی تمام صفات کے مالک ہو)۔
اور نیز میں نے سنا ہے کہ خیبر کے دن فرمایا:
« لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ يُحِبُّهُ اللَّهَ و رسولهُ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ»؛ میں(کل) پرچم اس شخص کو دوں گا کہ جو خدا اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول(ص) بھی اسے دوست رکھتے ہیں اور خدا خیبر کو اس کے وسیلہ سے فتح کرے گا۔ اور پھر پرچم کو علی علیہ السلام کے ہاتھ میں دیا اور خداوند نے خیبر کو اس کے ہاتھوں فتح کیا۔
اور نیز جب آیۂ مباہلہ نازل ہوئی:
« فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبينَ » تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے علی و فاطمہ و حسن و حسین کو اپنے ساتھ لیا اور عرض کی:’’خداوندا! میرے اہل یہ ہیں(اور اس آیہ کے مطابق علی نفس پیغمبر تھے)۔
یہ حدیث اہلسنت کی مہم ترین کتابوں جیسے صحیح مسلم و ترمذی و سنن ابن ماجه میں ذکر ہوئی ہے۔
(جب معاویہ نے ان باتوں کو سنا تو سخت شرمندہ ہوا اور چپ سادھ گیا لیکن عجیب یہ ہے کہ پھر بھی علی(ع) پر ناسزاگوئی سے باز نہ آیا)۔
البتہ اس کی یہ احمقانہ کوششیں کسی مقام پر نہ پہنچ پائیں اور اندھے تعصب کے بادلوں کے پیچھے چھپا سورج مخفی نہ رہا، آج آپ(ع) کے مناقب و فضائل دنیا کے شرق و غرب میں پھیلے ہوئے ہیں اور مخالف اور مقافق دونوں کی کتابیں ان فضائل سے بھری پڑی ہیں۔ اور خلیل بن احمد کے مطابق (اس چیز کے مطابق کہ جو روضۃ المتقین میں من لا یحضرہ الفقیہ کی شرح میں بیان ہوئی ہے) نقل ہوا ہے کہ جب امیرالمؤمنین(ع) کے متعلق اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا: ’’میں ایسے شخص کی توصیف کیسے بیان کروں کہ جس کے دشمنوں نے اس کے فضائل کو حسد کی بنا پر پنہان کیا اور اس کے دوستان نے خوف اورتقیہ کی بنا پر، لیکن باوجود اس کے دنیا اس کے فضائل سے بھری پڑی ہے‘‘۔
اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے بعض سخت دشمن جب ان کے مہم فضائل پر پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’یہ تو شیعوں کے گھڑے ہوئے ہیں‘‘ مثلا داستان سدّ ابواب میں یعنی جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے حکم دیا کہ تمام مہاجر و انصار کے گھروں کے دروازوں کو جو مسجد کی طرف کھلتے ہیں انہیں بند کر دیا جائے سوائے علی(ع) کے گھر کے۔ اب یہاں ایک احمق شخص کہتا ہے کہ یہ شیعوں کی گھڑی ہوئی روایت ہے حالانکہ خود اہلسنت کی مختلف کتابوں میں ’’سدّ ابواب‘‘ کے واقعہ کا بیان متواتر روایات کے ساتھ موجود ہے اور جن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے پوچھا گیا کہ کیسے آپ(ص) نے اپنے چچا عباس کے گھر کے مسجد کی طرف والے دروازے کو تو بند کر دیا لیکن اپنے چچازاد بھائی علی(ع) کے گھر کے دروازے کو اسی طرح کھلا رہنے دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: ’’یہ حکم میری طرف سے نہیں تھا بلکہ یہ تو خداوند متعال کی طرف سے حکم تھا‘‘۔
مرحوم امینی نے اپنی انتہائی نفیس اور باارزش کتاب ’’الغدیر‘‘ کی تیسری جلد میں مسألہ سدّ الأبواب کے متعلق اہلسنت کے منابع اصلی میں سے بیس سے زیادہ احادیث کو نقل کیا ہے۔
لیکن ایک مہم نکتہ جو آپ عزیزان کی خدمت میں یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس طرح کانفرنسز جس طرح اپنے تئیں بہت اچھی ہیں لیکن ان میں صرف پرمعنی مقالات کی قرائت، قیمتی اشعار کو پڑھنا اور روشنفکری کے نعرے لگوا دینے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئےبلکہ ان میں ایک یاد رہ جانے والا کام کرنا چاہئے اور مجھ حقیر کی نظر میں لوگوں کو امیرالمومنین(ع) کے کلمات اور نھج البلاغہ سے آشنا کرانا ہے کہ جس کا آج انہوں نے نام سنا ہے لیکن اس سے ابھی کافی فاصلے پر ہیں۔
نہج البلاغہ ایک عظیم سمندر ہے کہ جس میں مختلف اقسام کے نہایت قیمتی گوہر موجود ہیں۔
نہج البلاغہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کہ جس میں زندگی کے تمام درس موجود ہیں۔ عقائد توحیدی سے لے کر کہ جس کے بارے میں بے مثال خطبہ موجود ہے مسائل اخلاقی و اجتماعی اور کلمات قصار تک کہ جو سورج کی مانند چمکتے ہیں اور اسی طرح مسائل سیاسی اور مدیریت اور حکومت کے سلسلہ میں پیغام کہ جس کا ایک نمونہ آپ(ع) کی جانب سے مالک اشتر کو لکھا گیا خط ہے کہ جو چودہ صدیاں گذر جانے کے باوجود بالکل تازہ ہے اور ہمارے موجودہ زمانے کے حکمرانوں اور مسؤلین کے بہترین لائحہ عمل ہے۔
لیکن بدقسمتی سے یہ نہج البلاغہ اسی طرح اجنبی رہا ہے ۔ اے کاش جس طرح آج کل مساجد میں نماز کے بعد منعقد کئے جانے والے تربیتی پروگرامز میں قرآن کریم کی تلاوت اور ترجمہ کا ایک صفحہ مل کر پڑھا جاتا ہے اسی طرح نہج البلاغہ کی چند سطور اور ان کا ترجمہ پڑھنے کا بھی رواج پیدا ہو۔
مجھے نہیں بھولا کہ جب ہم نے تفسیر نمونہ کے بعد نہج البلاغہ کی تفسیر کوتفسیر نمونہ کی ہی طرز پر لکھنے اور اس کی جملہ جملہ تفسیر لکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ کہ اس میں روزمرہ کے مسائل کے ساتھ تاریخی ، اخلاقی و علمی نکات کا اضافہ کریں اور سوچا کہ نہج البلاغہ پر لکھی گئیں دوسری شروحات سے استفادہ کریں گے تو ہم نے دیکھا کہ نہج البلاغہ پر دس سے زیادہ قابل قبول شروحات نہیں لکھی گئی ہیں حالانکہ قرآن کریم کی ہزار سے زیادہ تفاسیر لکھی جا چکی ہیں۔ اس وقت ہمیں نہج البلاغہ کی مظلومیت کا احساس ہوا اور نتیجہ میں کئی سالوں تک زحمت اٹھائی گئی جس کا نتیجہ بیس جلدوں میں آمادہ اور منتشر ہوا۔
آئیں مل کر کوشش کریں تاکہ نہج البلاغہ کو اس مظلومیت سے نکال سکیں اور اسلامی معاشرہ میں نہج البلاغہ سے آشنائی کی ایک تحریک شروع کریں۔ درسی کتب میں، مڈل سکولز، ہائی سکولز اور یونیورسٹیوں میں نہج البلاغہ سے متعلق آگاہی دی جانی چاہئے۔ ٹیلی ویژن اور میڈیا پر نہج البلاغہ سے متعلق مخصوص پروگرامز ہونے چاہئیں۔ حوزوی و غیرحوزوی محقق حضرات اپنی ابحاث میں نہج البلاغہ سے متعلق مہم نکات کو ذکر کریں۔ حوزہ علمیہ تو درس نہج البلاغہ کو ایک باقاعدہ درس کے طور پر ہونا چاہئے۔
اگر یہ کانفرنس نہج البلاغہ سے آشنائی کو ہمارے موجودہ معاشرے میں وسعت دے سکے تو یقینا اس نے ایک بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔
اس عظیم خزانے کو صرف عربی اور فارسی زبان والوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کے اہم حصوں کو دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہونا چاہئے اور اسے منتشر کرنا چاہئے۔ امید ہے کہ آپ اس مہم کام میں انشاءاللہ کامیاب ہونگے۔
آخر میں ایک بار پھر اس کانفرنس کے انتظامیہ کا اس کانفرنس کے انعقاد پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور خداوند متعال سے دعاگو ہوں کہ انہیں، آپ سب اور ہمیں مولی الموحدین کے ان مبارک کلمات کے زیر سایہ سعادت اور آخرت میں حسن عاقبت نصیب فرمائے۔